تحریر: نادم شگری
حوزه نیوز ایجنسی |
یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَo‘‘اے ایمان والوتم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرتھاتاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔(البقرہ۔۱۸۳)
رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس خطبے میں،جو آپ ؐنے ماہ رمضان کی آمد کے بارے میں دیا، ارشاد فرمایا: ’’۔۔۔ھو شَہرٌ دُعِیتُم فِیه اِلیٰ ضِیافۃِ اللّٰہ۔۔۔‘‘یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں دعوت دی گئی ہے خدا کی مہمانی کی طرف، یعنی یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تم’’ خدا کے مہمان‘‘ ہو ۔
دنیا کا دستور یہ ہے کہ جب کسی کو مہمان بنایاجاتاہے توہر میزبان اپنی استطاعت کے مطابق مختلف انواع واقسام کے ماکولات و مشروبات کابندوبست کرتاہے اورحتی الامکان اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرتاہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے؛ ایک طرف سے مہمانی کامژدہ سنایاگیاہے اوردوسری طرف سے کھانے، پینے پرمکمیں آنے کے بعداس کا سامان بقا’’رزق‘‘ کہلاتاہے۔اور ’’انسان‘‘وہ موجود ہے جو’’ جسم‘‘ اور ’’روح‘‘ سے مرکب ہے ،مگر ہماری خودفراموشی اور اشتباہ کا یہ عالم ہے کہ ہم نے انسان کو فقط جسم تصور کرلیاہے ۔
یہاں سے بات ذرا واضح ہوگئی کہ انسان کے لئے دوقسم کے رزق کی ضرورت ہے؛ایک جسم کے لئے اور دوسراروح کے لئے۔جسم کا رزق معمولی رزق ہے خدا نے اس کوحاصل کرنے کے لئے واسطے بنائے ہیں ان واسطوں کے ذریعے انسان یہ رزق حاصل کرتا ہے مگر روح کا رزق ایسا رزق ہے جو خدا بلا واسطہ عطاکرتاہے ۔جسم کی غذا کے لئے ممکن ہے میزبان آپ کا دوست بھی ہوسکتا ہے ،آپ کا پڑوسی یا کوئی اور ہوسکتا ہے مگر روح کی غذا کا میزبان خدا ہی ہے اسی لئے رمضان میںخدا خود میزبان بنتاہے اور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مہمانی کوئی معمولی مہمانی نہیں ،جسم کی مہمانی نہیں بلکہ روح کو رزق دینے والی مہمانی ہے، روح کی بقاکاسامان پیدا کرنے کی دعوت ہے۔
ہم نے اشتباہ کیا اور رمضان کی ضیافت کو صرف جسمانی ضیافت سمجھ لیا ،ہم ہر چیز کو جسم کے لئے اور اس کی بقا کے لئے چاہتے ہیں؛خدا چاہتاہے کہ روح کی بقا کا سامان ہو ۔جسم کو اتنا کھلاؤ کہ روح کو اٹھا سکے جسم روح کی سواری ہے اس سواری کو اتنی غذا دو کہ وہ آسانی سے سوار کو اٹھا سکے۔ جسم کی مضبوطی فقط روح کی آسانی اور خدا کی خدمت ادا کرنے کے لئے ہے۔ مولائے کائنا ت حضرت علی بن ابی طالب ؑکا یہ ارشاد ’’قوّ علیٰ خدمتکَ جوارحی۔۔۔‘‘اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت روایات اس بارے میں ہیں منجملہ حضور اکرم ؐ سے نقل یہ روایت کہ’’لایدخل ملکوت السّمٰوٰت قلبُ من ملاء بطنُہ‘‘ملکوت میں اس کا دل داخل نہیں ہوسکتا جس کا پیٹ بھراہواہو۔حکیم لقمان کا ایک قول ہے کہ’’جب معدہ بھرا ہوا ہو تو تفکر سوجاتاہے‘‘۔
امام المتقین ؑکا ۱۹رمضان کو اپنی بیٹی سے یہ فرماناکہ ’’تم چاہتے ہو کہ میں خداکی بارگاہ میں بھرے پیٹ کے ساتھ حاضر ہوں‘‘ان باتوں کے ضمن میں روح کو مدنظر رکھاگیاہے؛ کیونکہ روح کی اہمیت جسم سے زیادہ ہے۔روح ساراسال جسم کی خدمت کرتی ہے ؛اس لئے رمضان میں جسم سے کہاگیاہے کہ تم منہ بند رکھو تاکہ روح کو کچھ کھانے کو ملے۔
خدا نے ہمیں جسمانی دسترخوان سے اٹھایاہے تو ضرور کسی ’’بہتر‘‘ کے لئے اٹھایاہے۔میری مہمانی میں آئے ہو تو اس ’’ناسوت‘‘ کے دسترخوان سے اٹھو جہاں فقط جسم کی بھوک مٹتی ہے، اٹھو اور ’’ملکوت‘‘ کے دسترخوان سے کھاؤ جہاں تمہاری روح سیراب ہوتی ہے ۔
مولانا روم ایک تمثیل کے ضمن میں اس مطلب کی وضاحت کرتے ہیںکہ مجنوں ایک اونٹنی پر بیٹھ کر لیلیٰ کے شہر کی طرف چل پڑتا ہے؛اونٹنی کابچہ گھر میں پڑا ہوا ہے۔جب تک مجنوں جاگ رہاہوتاہے اور اونٹنی کی مہار پر اس کا اختیار ہوتاہے اونٹنی لیلیٰ کے شہر کی سمت چل رہی ہوتی ہے لیکن جب وہ عشق میں اپنے آپ سے غافل ہوجاتا ہے اور اونٹنی کی مہار ڈھیلی پڑجاتی ہے تو اونٹنی اپنے بچے کی طرف ،گھر کی جانب سفر کرتی ہے جب مجنوںہوش میں آتا ہے تو خود کو اپنے گھر کے پاس پاتاہے اور اسے پھر نئے سرے سے سفرشروع کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ یہاں مجنوں سے مرادروح ،اونٹنی سے جسم،لیلیٰ سے خدا اوراونٹنی کے بچے سے انسانی کی خواہشات مراد لی ہیں یعنی جب تک روح (مجنوں) کو جسم(اونٹنی) پر تسلط حاصل ہوگاجسم کا سفر خدا(لیلیٰ) کی طرف ہوگالیکن جب اس کا اختیار ختم ہوجائے گا جسم(اونٹنی) کارخ اپنی خواہشات (بچہ) کی طرف ہوگا۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ خدا ہمیں رمضان میں بھوکا پیاسا کیوں رکھنا چاہتا ہے اس لئے کہ رمضان میں اونٹنی کو اپنے بچے سے دور رکھو اور اس کو اپنے اختیار میں رکھو تاکہ مجنوں لیلیٰ کی طرف پہنچ سکے۔